EN हिंदी
اتنے آسودہ کنارے نہیں اچھے لگتے | شیح شیری
itne aasuda kinare nahin achchhe lagte

غزل

اتنے آسودہ کنارے نہیں اچھے لگتے

یاسمین حمید

;

اتنے آسودہ کنارے نہیں اچھے لگتے
ایک ہی جیسے نظارے نہیں اچھے لگتے

اتنی بے ربط کہانی نہیں اچھی لگتی
اور واضح بھی اشارے نہیں اچھے لگتے

ذرا دھیمی ہو تو خوشبو بھی بھلی لگتی ہے
آنکھ کو رنگ بھی سارے نہیں اچھے لگتے

پاس آ جائیں تو بے نوری مقدر ٹھہرے
دور بھی اتنے ستارے نہیں اچھے لگتے

اپنی گمنامی کے صحراؤں میں خوش رہتی ہوں
اب مجھے شہر تمہارے نہیں اچھے لگتے