اتنا یقین رکھ کہ گماں باقی رہے
ایک ذرا کار جہاں باقی رہے
باقی رہے یادوں کی اک قوس قزح
یعنی مری جائے اماں باقی رہے
شورش خوں رقص جنوں ختم نہ ہو
قہقہہ ہم نفساں باقی رہے
آتا رہے یوں ہی سدا موسم گل
سلسلۂ دل زدگاں باقی رہے
قافلۂ غم گزراں کی بھی سنا
حوصلۂ ہم سفراں باقی رہے
قید قفس شور نفس کس کے لیے
کس کے لیے رشتۂ جاں باقی رہے
آنکھوں سے چھن جائیں اک اک خواب مگر
اس کی طلب دل کا دھواں باقی رہے
غزل
اتنا یقین رکھ کہ گماں باقی رہے
عبد اللہ کمال