اتنا تو دوستی کا صلہ دیجئے مجھے
اپنا سمجھ کے زہر پلا دیجئے مجھے
اٹھے نہ تاکہ آپ کی جانب نظر کوئی
جتنی بھی تہمتیں ہیں لگا دیجئے مجھے
کیوں آپ کی خوشی کو مرا غم کرے اداس
اک تلخ حادثہ ہوں بھلا دیجئے مجھے
صدق و صفا نے مجھ کو کیا ہے بہت خراب
مکر و ریا ضرور سکھا دیجئے مجھے
میں آپ کے قریب ہی ہوتا ہوں ہر گھڑی
موقع کبھی پڑے تو صدا دیجئے مجھے
ہر چیز دستیاب ہے بازار میں عدمؔ
جھوٹی خوشی خرید کے لا دیجئے مجھے
غزل
اتنا تو دوستی کا صلہ دیجئے مجھے
عبد الحمید عدم