اتنا پرجوش میرے درد کا دھارا تو نہ تھا
کیا پس پردہ کہیں قرب تمہارا تو نہ تھا
تم نے القاب بدل کر مجھے مکتوب لکھا
اس تغیر میں کہیں تلخ اشارا تو نہ تھا
لازمہ قطع مراسم سے یہ تفریق ہوئی
ورنہ یہ عشق مجھے آپ سے پیارا تو نہ تھا
بال کھولے ہوئے کیوں آ گئے پردے کے قریب
میں نے آواز سنائی تھی پکارا تو نہ تھا
ہم تو موزوں تھے کسی عالم الفت کے لئے
زر کی دنیا میں جلیؔ کام ہمارا تو نہ تھا
غزل
اتنا پرجوش میرے درد کا دھارا تو نہ تھا
جلی امروہوی