اتنا محتاط کہ جنبش نہیں کرنے دے گا
عمر بھر ایک گزارش نہیں کرنے دے گا
اس سے امید یہ کرتے ہو کہ سورج کا طواف
وہ تو محور پہ بھی گردش نہیں کرنے دے گا
دل ہی چاہے گا تو زنجیر کے ٹکڑے ہوں گے
اس سے پہلے کوئی کوشش نہیں کرنے دے گا
پار کرنے کے لئے آج بھی دریا کا بہاؤ
ایسا رکھے گا کہ خواہش نہیں کرنے دے گا
اب بھی سینے میں کہاں باغ اترنے والا
پاؤں دے جائے گا لغزش نہیں کرنے دے گا
غزل
اتنا محتاط کہ جنبش نہیں کرنے دے گا
احمد کمال پروازی