EN हिंदी
اتنا محتاط کہ جنبش نہیں کرنے دے گا | شیح شیری
itna mohtat ki jumbish nahin karne dega

غزل

اتنا محتاط کہ جنبش نہیں کرنے دے گا

احمد کمال پروازی

;

اتنا محتاط کہ جنبش نہیں کرنے دے گا
عمر بھر ایک گزارش نہیں کرنے دے گا

اس سے امید یہ کرتے ہو کہ سورج کا طواف
وہ تو محور پہ بھی گردش نہیں کرنے دے گا

دل ہی چاہے گا تو زنجیر کے ٹکڑے ہوں گے
اس سے پہلے کوئی کوشش نہیں کرنے دے گا

پار کرنے کے لئے آج بھی دریا کا بہاؤ
ایسا رکھے گا کہ خواہش نہیں کرنے دے گا

اب بھی سینے میں کہاں باغ اترنے والا
پاؤں دے جائے گا لغزش نہیں کرنے دے گا