اتنا احساس تو دے پالنے والے مجھ کو
میں سنبھل جاؤں اگر کوئی سنبھالے مجھ کو
بے سہارا ہوں کسی وقت بھی گر جاؤں گا
اپنی دیوار میں جو چاہے ملا لے مجھ کو
ڈوبنے سے جو بچائے گا وہ کیا پائے گا
میں ابھی لاش نہیں کون نکالے مجھ کو
میں پیمبر تو نہیں تھا کہ اماں پا جاتا
کیا چھپاتے بھی کہیں مکڑی کے جالے مجھ کو
میں بھی روشن ہوں مگر صبح کے تارے کی طرح
چند لمحوں میں ڈبو دیں گے اجالے مجھ کو
کیا ضروری ہے کہ دشمن ہی کے سر جائے عذاب
کر دیں احباب ہی قاتل کے حوالے مجھ کو
تجھ سے حالات کے پتھر نہ سہے جائیں گے
اپنے احساس کا آئینہ بنا لے مجھ کو

غزل
اتنا احساس تو دے پالنے والے مجھ کو
اصغر مہدی ہوش