اتنا احسان اور کرتا کون
مجھے سے بڑھ کر مجھے سمجھتا کون
دین و دنیا سے ماورا تھا میں
میری باتوں پہ کان دھرتا کون
میں نہ ہوتا تو یوں لب دریا
آبرو تشنگی کی رکھتا کون
جو کسی نے لکھا نہیں وہ حرف
میں نہ لکھتا تو اور لکھتا کون
کھوٹ مجھ میں تو سب نے دیکھ لیا
اپنا سونا مگر پرکھتا کون
جس کی منزل ہو خواب در بستہ
اس مسافر کے ساتھ چلتا کون
آئنہ اپنے روبرو رکھ کر
میں نہ ہنستا تو مجھ پہ ہنستا کون

غزل
اتنا احسان اور کرتا کون
شبی فاروقی