اتنا بھی نہیں کرتے انکار چلے آؤ
سو بار بلایا ہے اک بار چلے آؤ
ہوں فاصلے نقشوں کے یا فرق ہوں شہروں کے
دل سے تو نہیں دوری سرکار چلے آؤ
اک منتظر وعدہ بیدار تو ہے کب سے
ہو جائے مقدر بھی بیدار چلے آؤ
اندیشۂ رسوائی کیوں راہ میں حائل ہو
کر لیں گے زمانے کو ہموار چلے آؤ
تا چند وہی رنجش للہ ادھر دیکھو
لو جرم کا کرتے ہیں اقرار چلے آؤ
بے کیفئ موسم کا یہ عذر ہے بے معنی
لگ جائیں گے پھولوں کے انبار چلے آؤ
اس آبلہ پائی میں خاروں کی شکایت کیا
کچھ خار بھی ہیں آخر حق دار چلے آؤ
جب چل ہی پڑے اخگرؔ پھر فکر کوئی کیسی
جس طرح بنے اب تو سرکار چلے آؤ
غزل
اتنا بھی نہیں کرتے انکار چلے آؤ
اخگر مشتاق رحیم آبادی