اتنا بتلا مجھے ہرجائی ہوں میں یار کہ تو
میں ہر اک شخص سے رکھتا ہوں سروکار کہ تو
کم ثباتی مری ہر دم ہے مخاطب بہ حباب
دیکھیں تو پہلے ہم اس بحر سے ہوں پار کہ تو
ناتوانی مری گلشن میں یہ ہی بحثے ہے
دیکھیں اے نکہت گل ہم ہیں سبک بار کہ تو
دوستی کر کے جو دشمن ہوا تو جرأتؔ کا
بے وفا وہ ہے پھر اے شوخ ستم گار کہ تو
غزل
اتنا بتلا مجھے ہرجائی ہوں میں یار کہ تو
جرأت قلندر بخش