عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے
یہ سن غضب کا ہے یہ جوانی بلا کی ہے
سچ پوچھیے تو نالۂ بلبل ہے بے خطا
پھولوں میں ساری آگ لگائی صبا کی ہے
دل ہے عجیب گل چمن روزگار میں
رنگت تو پھول کی ہے مگر بو وفا کی ہے
خلوت میں کیوں یہ ساتھ ہیں سب کو الگ کرو
شوخی کا ہے نہ کام نہ حاجت حیا کی ہے
وہ ہاتھ ان کے چومتی ہے میں ہوں پائمال
یہ ہیں مرے نصیب وہ قسمت حنا کی ہے
انجام کیا ہو داغ محبت کا دیکھیے
سینے میں ابتدا سے جلن انتہا کی ہے
موسم یہی تو پینے پلانے کا ہے جلیل
مے خوار باغ باغ ہیں آمد گھٹا کی ہے
غزل
عصمت کا ہے لحاظ نہ پروا حیا کی ہے
جلیلؔ مانک پوری