اسم سارے بھول بیٹھا شعبدہ گر کس طرح
جمع ہونا ہے مجھے اب کے بکھر کر کس طرح
میں دعا کے پر لگا کر بھی پہنچ پاتا نہیں
آسماں اٹھتا چلا جاتا ہے اوپر کس طرح
واہمے کیسے یقیں بن کر لہو میں رچ گئے
زلزلے پھیلے مری مٹی کے اندر کس طرح
وسوسوں نے آن گھیرا ہے مجھے پھر کس لیے
رکھ دیا میں نے قدم موج ہوا پر کس طرح
دیکھتے ہیں سب منورؔ سوچتا کوئی نہیں
عکس رہ جاتا ہے آئینے کے اندر کس طرح
غزل
اسم سارے بھول بیٹھا شعبدہ گر کس طرح
منور عزیز