اسی طرح مری آنکھوں کو بند ہونا تھا
ترے غرور کا پرچم بلند ہونا تھا
نگہ کے ساتھ کہاں تک سفر کیا جائے
تھکن سے چور مرا بند بند ہونا تھا
حصار ذات ہے یا کوئی آئینہ خانہ
نہ اس قدر بھی ہمیں خود پسند ہونا تھا
شعاع مہر کا دم بھی بڑا غنیمت ہے
فصیل شب کو سحر تک بلند ہونا تھا
بہت دبیز سہی چادر شب ظلمت
دیے کی لو کو مگر سر بلند ہونا تھا
بندھے ہیں سبز ربن میں سیاہ بال اس کے
کمند کو بھی اسیر کمند ہونا تھا
غزل
اسی طرح مری آنکھوں کو بند ہونا تھا
قاصد عزیز