اسی معمول روز و شب میں جی کا دوسرا ہونا
حوادث کے تسلسل میں ذرا سا کچھ نیا ہونا
ہمیں تو دل کو بہلانا پڑا حیلے حوالے سے
تمہیں کیسا لگا بستی کا بے صوت و صدا ہونا
صنم بنتے ہیں پتھر جب الگ ہوتے ہیں ٹکرا کر
عجب کار عبث مٹی کا مٹی سے جدا ہونا
مگر پھر زندگی بھر بندگی دنیا کی ہے ورنہ
کسے اچھا نہیں لگتا ہے تھوڑا سا خدا ہونا
مٹانا نقش اس کے باغ کی کہنہ فصیلوں سے
ہرے پتوں پہ اس کے نام نامی کا لکھا ہونا
غزل
اسی معمول روز و شب میں جی کا دوسرا ہونا
سہیل احمد زیدی