EN हिंदी
اسی لیے بھی نئے سفر سے بندھے ہوئے ہیں | شیح شیری
isi liye bhi nae safar se bandhe hue hain

غزل

اسی لیے بھی نئے سفر سے بندھے ہوئے ہیں

افضل گوہر راؤ

;

اسی لیے بھی نئے سفر سے بندھے ہوئے ہیں
کہ ہم پرندے تو بال و پر سے بندھے ہوئے ہیں

تمہیں ہی صحرا سنبھالنے کی پڑی ہوئی ہے
نکل کے گھر سے بھی ہم تو گھر سے بندھے ہوئے ہیں

کسی نے دن میں تمام چھاؤں اتار لی ہے
یہ برگ و گل تو یوں ہی شجر سے بندھے ہوئے ہیں

یہاں بھلا کون اپنی مرضی سے جی رہا ہے
سبھی اشارے تری نظر سے بندھے ہوئے ہیں

سگان کوچۂ دلبراں کی مثال ہم تو
رہا بھی ہو کر کسی کے در سے بندھے ہوئے ہیں

زمین خود ہم کو کھینچتی پھر رہی ہے گوہرؔ
عجیب عالم میں رہ گزر سے بندھے ہوئے ہیں