اسی لیے بھی نئے سفر سے بندھے ہوئے ہیں
کہ ہم پرندے تو بال و پر سے بندھے ہوئے ہیں
تمہیں ہی صحرا سنبھالنے کی پڑی ہوئی ہے
نکل کے گھر سے بھی ہم تو گھر سے بندھے ہوئے ہیں
کسی نے دن میں تمام چھاؤں اتار لی ہے
یہ برگ و گل تو یوں ہی شجر سے بندھے ہوئے ہیں
یہاں بھلا کون اپنی مرضی سے جی رہا ہے
سبھی اشارے تری نظر سے بندھے ہوئے ہیں
سگان کوچۂ دلبراں کی مثال ہم تو
رہا بھی ہو کر کسی کے در سے بندھے ہوئے ہیں
زمین خود ہم کو کھینچتی پھر رہی ہے گوہرؔ
عجیب عالم میں رہ گزر سے بندھے ہوئے ہیں
غزل
اسی لیے بھی نئے سفر سے بندھے ہوئے ہیں
افضل گوہر راؤ