EN हिंदी
اسی خیال سے ترک ان کی چاہ کر نہ سکے | شیح شیری
isi KHayal se tark unki chah kar na sake

غزل

اسی خیال سے ترک ان کی چاہ کر نہ سکے

حفیظ جونپوری

;

اسی خیال سے ترک ان کی چاہ کر نہ سکے
کہیں گے لوگ کہ دو دن نباہ کر نہ سکے

ہمیں جو دیکھ لیا جھک گئی حیا سے آنکھ
ادھر ادھر سر محفل نگاہ کر نہ سکے

خدا کے سامنے آیا کچھ اس ادا سے وہ شوخ
کہ منہ سے اف بھی ذرا داد خواہ کر نہ سکے

ترے کرم کا بھروسا ہی زاہدوں کو نہیں
اسی لیے تو یہ کھل کر نگاہ کر نہ سکے

رہا یہ پاس ہمیں آپ کی نزاکت کا
کہ دل کا خون ہوا منہ سے آہ کر نہ سکے

تمہیں حفیظؔ سے نفرت ہے تو یہ فکر ہے کیوں
کسی حسین سے وہ رسم و راہ کر نہ سکے