EN हिंदी
اسی خیال سے دل کی رفو گری نہیں کی | شیح شیری
isi KHayal se dil ki rafu-gari nahin ki

غزل

اسی خیال سے دل کی رفو گری نہیں کی

سید کاشف رضا

;

اسی خیال سے دل کی رفو گری نہیں کی
وہ جس نے زخم دیا اس نے مریمی نہیں کی

ترا وجود سراسر ہے ملتفت تو پھر
ترے گریز نے کیوں اب تلک کمی نہیں کی

ہوا پڑا ہے یوں ہی کلبۂ نظر تاریک
کہ آج اس کے سراپا نے روشنی نہیں کی

کہانیوں میں ہی ملتے ہیں کچھ نشاں میرے
گزار دی ہے جو میں نے وہ زندگی نہیں کی