اسی خیال سے دل کی رفو گری نہیں کی
وہ جس نے زخم دیا اس نے مریمی نہیں کی
ترا وجود سراسر ہے ملتفت تو پھر
ترے گریز نے کیوں اب تلک کمی نہیں کی
ہوا پڑا ہے یوں ہی کلبۂ نظر تاریک
کہ آج اس کے سراپا نے روشنی نہیں کی
کہانیوں میں ہی ملتے ہیں کچھ نشاں میرے
گزار دی ہے جو میں نے وہ زندگی نہیں کی

غزل
اسی خیال سے دل کی رفو گری نہیں کی
سید کاشف رضا