اسی کا نام ہے دیوانہ بننا اور بنا دینا
بتوں کے سامنے جا کر خدا کا واسطہ دینا
نگاہ شوق کا بڑھ کر نقاب رخ اٹھا دینا
ترے جلوے کا برہم ہو کے اک بجلی گرا دینا
خدائی ہی خدا کی خاک سے انساں بنا دینا
تمہارا کھیل ہے انساں کو مٹی میں ملا دینا
میں اپنی داستان درد دل رو رو کے کہتا ہوں
جہاں سے چاہنا تم سنتے سنتے مسکرا دینا
مذاق شکوہ اچھا ہے مگر اک شرط ہی اے دل
یہاں جو یاد کر لینا وہاں جا کر بھلا دینا
وفا بے شک جفاؤں کا بدل ہے لیکن اے ظالم
بہت مشکل ہے مجھ سے رونے والے کو ہنسا دینا
زباں کو شکوہ سنجی کا مزا ہی بات کہنے دو
میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ تم داد وفا دینا
یہی معنی ہیں اے شوکتؔ بلند و پست کے شاید
نگاہوں پر چڑھانا اور نظروں سے گرا دینا
غزل
اسی کا نام ہے دیوانہ بننا اور بنا دینا
شوکت تھانوی