اسی دنیا میں دنیائیں ہماری بھی بسی ہیں
روش سے سیڑھیاں مرمر کی پانی میں گئی ہیں
محل ہے اور سلگتا عود ہے اور جھاڑ فانوس
لہو سے مشک اعضا سے شعاعیں پھوٹتی ہیں
تمنا کے جزیرے آسمانوں میں بنے ہیں
مرے چاروں طرف لہریں اسی جانب اٹھی ہیں
یہ کیسی دھوپ اور پانی میں افزائش ہوئی ہے
بہشتی ٹہنیاں اس اوڑھنی سے جھانکتی ہیں
ہمارا نام بھی بارہ دری پر نقش کرنا
یہ ساری جالیاں ہم نے نگاہوں سے بنی ہیں
غزل
اسی دنیا میں دنیائیں ہماری بھی بسی ہیں
محمد اظہار الحق