EN हिंदी
اسی باعث تو دنیا کی مصیبت غم نہیں ہوتی | شیح شیری
isi bais to duniya ki musibat gham nahin hoti

غزل

اسی باعث تو دنیا کی مصیبت غم نہیں ہوتی

جلیل الہ آبادی

;

اسی باعث تو دنیا کی مصیبت غم نہیں ہوتی
یہ دنیا غم تو دیتی ہے شریک غم نہیں ہوتی

چراغوں میں لہو انسانیت کا جگمگاتا ہے
مگر انسانیت کی چشم کم پر نم نہیں ہوتی

خوشی محسوس کرتا ہوں تو دنیا ساتھ دیتی ہے
مصیبت میں مگر آمادۂ ماتم نہیں ہوتی

خوشی کی شمع تو اے دوست زد میں آ بھی جاتی ہے
مگر داغ جگر کی روشنی مدھم نہیں ہوتی

سلیقہ چاہئے آواز کو پہچان لینے کا
نوائے شاعری ہر دم نوائے غم نہیں ہوتی

جلیلؔ ان سے بچھڑ کر اک زمانہ ہو گیا لیکن
ابھی تک میرے اشکوں کی روانی کم نہیں ہوتی