عشق وہ مشک ہے جو لاکھ چھپائے نہ چھپے
داغ ہم سے بھی محبت کے لگائے نہ چھپے
جلوہ گر جیسے پس ابر مہ کامل ہو
رخ زیبا وہ ستم گر نہ دکھائے نہ چھپے
حسن کو ہوش ربا نیم حجابی نے کیا
وہ کبھی صاف مرے سامنے آئے نہ چھپے
بے وفائی سے وہ اپنی رہے منکر لیکن
ان کی آنکھوں میں بسے عکس پرائے نہ چھپے
سی لیا چاک دہن راز چھپانے کو مگر
اشک آنکھوں نے مسلسل جو بہائے نہ چھپے
شب تاریک نے رکھا تھا بھرم کتنوں کا
جب لگی آگ اجالا ہوا سائے نہ چھپے
خوف رسوائی رہا خواہش قربت بھی حقیرؔ
ہم ملا ان سے نگاہوں کو نہ پائے نہ چھپے

غزل
عشق وہ مشک ہے جو لاکھ چھپائے نہ چھپے
حقیر جہانی