EN हिंदी
عشق وہ مشک ہے جو لاکھ چھپائے نہ چھپے | شیح شیری
ishq wo mashk hai jo lakh chhupae na chhape

غزل

عشق وہ مشک ہے جو لاکھ چھپائے نہ چھپے

حقیر جہانی

;

عشق وہ مشک ہے جو لاکھ چھپائے نہ چھپے
داغ ہم سے بھی محبت کے لگائے نہ چھپے

جلوہ گر جیسے پس ابر مہ کامل ہو
رخ زیبا وہ ستم گر نہ دکھائے نہ چھپے

حسن کو ہوش ربا نیم حجابی نے کیا
وہ کبھی صاف مرے سامنے آئے نہ چھپے

بے وفائی سے وہ اپنی رہے منکر لیکن
ان کی آنکھوں میں بسے عکس پرائے نہ چھپے

سی لیا چاک دہن راز چھپانے کو مگر
اشک آنکھوں نے مسلسل جو بہائے نہ چھپے

شب تاریک نے رکھا تھا بھرم کتنوں کا
جب لگی آگ اجالا ہوا سائے نہ چھپے

خوف رسوائی رہا خواہش قربت بھی حقیرؔ
ہم ملا ان سے نگاہوں کو نہ پائے نہ چھپے