EN हिंदी
عشق تو ساری عمر کا اک پیشہ نکلا | شیح شیری
ishq to sari umr ka ek pesha nikla

غزل

عشق تو ساری عمر کا اک پیشہ نکلا

سجاد باقر رضوی

;

عشق تو ساری عمر کا اک پیشہ نکلا
ہم نے کیا سوچا تھا یارو کیا نکلا

دل کا پتھر پگھلے تو کیا نکلے گا
پتھر کا دل پگھلا تو دریا نکلا

بھاگ رہا ہے دریا بھی ساگر کی طرف
پیاس بجھانے والا خود پیاسا نکلا

صبح سویرے تھی کرنوں کی بزم سجی
شام کو گھر سے تنہا اک سایہ نکلا

اتنی عمر میں اپنے معنی کچھ نہ ملے
دل میں صورت آنکھوں میں سپنا نکلا

دل کے سفر میں لہو کا دریا پار کیا
اس کے آگے صحرا میں صحرا نکلا

لے کے فقیری آس لگائی دنیا سے
باقرؔ پیارے تو بھی سگ دنیا نکلا