عشق تو ساری عمر کا اک پیشہ نکلا
ہم نے کیا سوچا تھا یارو کیا نکلا
دل کا پتھر پگھلے تو کیا نکلے گا
پتھر کا دل پگھلا تو دریا نکلا
بھاگ رہا ہے دریا بھی ساگر کی طرف
پیاس بجھانے والا خود پیاسا نکلا
صبح سویرے تھی کرنوں کی بزم سجی
شام کو گھر سے تنہا اک سایہ نکلا
اتنی عمر میں اپنے معنی کچھ نہ ملے
دل میں صورت آنکھوں میں سپنا نکلا
دل کے سفر میں لہو کا دریا پار کیا
اس کے آگے صحرا میں صحرا نکلا
لے کے فقیری آس لگائی دنیا سے
باقرؔ پیارے تو بھی سگ دنیا نکلا
غزل
عشق تو ساری عمر کا اک پیشہ نکلا
سجاد باقر رضوی