EN हिंदी
عشق تاثیر سے نومید نہیں | شیح شیری
ishq tasir se naumid nahin

غزل

عشق تاثیر سے نومید نہیں

مرزا غالب

;

عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجر بید نہیں

سلطنت دست بدست آئی ہے
جام مے خاتم جمشید نہیں

ہے تجلی تری سامان وجود
ذرہ بے پرتو خورشید نہیں

راز معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں

گردش رنگ طرب سے ڈر ہے
غم محرومئ جاوید نہیں

کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں