عشق شبنم نہیں شرارا ہے
راز یہ مجھ پہ آشکارا ہے
اک کرم کی نگاہ کر دیجے
عمر بھر کا ستم گوارا ہے
رقص میں ہیں جو ساغر و مینا
کس کی نظروں کا یہ اشارا ہے
ایسی منزل پہ آ گیا ہوں دوست
ترے غم کا فقط سہارا ہے
لوٹ آئے ہیں یار کے در سے
وقت نے جب ہمیں پکارا ہے
دل نہ ٹوٹے تو ذرۂ ناچیز
کیمیا ہے جو پارا پارا ہے
جام رنگیں میں ان کا عکس جمال
یا شفق میں کوئی ستارا ہے
ناؤ ٹکرا چکی ہے طوفاں سے
اپنا مرشد ہی اب سہارا ہے
عشق کرنا ہے مات کھا جانا
اس میں جیتا ہوا بھی ہارا ہے
اپنے درشنؔ پہ اک نگاہ کرم
کہ غم زندگی کا مارا ہے
غزل
عشق شبنم نہیں شرارا ہے
درشن سنگھ