عشق میں کوئی زماں اور نہ مکاں ہوتا ہے
وہ دو عالم سے الگ ایک جہاں ہوتا ہے
کس قدر ان کی طبیعت پہ گراں ہوتا ہے
جس فسانے میں وفاؤں کا بیاں ہوتا ہے
شدت شوق کا اللہ رے فسوں اف رے فریب
ان کی نفرت پہ محبت کا گماں ہوتا ہے
صرف اک دل ہی وہ معبد ہے وہ اک معبد عشق
جس میں ناقوس ہم آواز اذاں ہوتا ہے
ان سے اس طرح جدا ہو کے ہم آئے ہیں کہ ہائے
آنکھ سے جیسے کوئی اشک رواں ہوتا ہے
حسن کے حق سے کوئی عہدہ بر آ کیا ہوگا
عشق کا حق بھی ادا ہم سے کہاں ہوتا ہے
اپنی سوزش میں بھی ہوتا ہے جہنم محسوس
غیر کی آگ کا شعلہ بھی دھواں ہوتا ہے
سننے والے ہی پہ ہے منحصر اندازۂ غم
ورنہ جو حال ہے وہ کس سے بیاں ہوتا ہے
غیر کی آگ میں جلنے کا مزہ ہے کچھ اور
ورنہ پروانہ بھی خود شعلہ بجاں ہوتا ہے
ہائے اس عشق میں انساں کا جواں مر جانا
جیسے کمبخت اسی دن کو جواں ہوتا ہے
ساتھ ہر سانس کے آتا ہے زباں پر ترا نام
دل میں جو کچھ ہو وہی ورد زباں ہوتا ہے
جس جنازے پہ برستی ہوئی حسرت دیکھوں
اس جنازے پہ مجھے اپنا گماں ہوتا ہے
عشق میں ہائے طبیعت کا وہ عالم بسملؔ
عالم عشق بھی جب دل پہ گراں ہوتا ہے
غزل
عشق میں کوئی زماں اور نہ مکاں ہوتا ہے
بسمل سعیدی