عشق میں خود سری نہیں ہوتی
حسن میں بندگی نہیں ہوتی
ناوک افگن بتا تو دے آخر
درد میں کیوں کمی نہیں ہوتی
راز الفت کہاں چھپائیں ہم
دل سے بھی دشمنی نہیں ہوتی
وہ محبت بھی کیا محبت ہے
جس میں دیوانگی نہیں ہوتی
آہ کر کے بھی ہم نے دیکھ لیا
سوز غم میں کمی نہیں ہوتی
مست آنکھوں ہی سے پلا ساقی
جام سے بے خودی نہیں ہوتی
جب کبھی سامنے وہ آتے ہیں
ہم سے اک بات بھی نہیں ہوتی
کیا کریں ایسے غم کو ہم لے کر
جس میں ان کی خوشی نہیں ہوتی
کیسی تقدیر ہے ہماری وقارؔ
غم ہی غم ہیں خوشی نہیں ہوتی
غزل
عشق میں خود سری نہیں ہوتی
وقار بجنوری