عشق میں جس کے یہ احوال بنا رکھا ہے
اب وہی کہتا ہے اس وضع میں کیا رکھا ہے
لے چلے ہو مجھے اس بزم میں یارو لیکن
کچھ مرا حال بھی پہلے سے سنا رکھا ہے
حال دل کون سنائے اسے فرصت کس کو
سب کو اس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے
دل برا تھا کہ بھلا کام وفا کے آیا
یار جانے بھی دے اس بحث میں کیا رکھا ہے
اے صبا آ کہ دکھائیں تجھے وہ گل جس نے
باتوں ہی باتوں میں گلزار کھلا رکھا ہے
دیکھ اے دل نہ کہیں بات یہ اس تک پہنچے
چشم نمناک نے طوفان اٹھا رکھا ہے
حسن چاہے جسے ہنس بول کے اپنا کر لے
دل نے اپنوں کو بھی بیگانہ بنا رکھا ہے
دل جو اس بزم میں آتا ہے تو جاتا ہی نہیں
ایک دن دیکھنا دیوانہ ہوا رکھا ہے
حال مت پوچھ محبت کا ہوا ہے کچھ اور
لا کے کس نے یہ سر راہ دیا رکھا ہے
انتظام ایسا کہ گھٹتی ہی نہیں رونق بزم
ہم سے کتنے ہیں کہ وعدے پہ لگا رکھا ہے
ہوش تو پہلے ہی کھو آئے تھے اس محفل میں
اب اگر جائیں تو پھر دل بھی گیا رکھا ہے
تیرے آنے کی خبر پا کے ابھی سے دل نے
شکوہ کو اور کسی دن پہ اٹھا رکھا ہے
بارہا یوں بھی ہوا تیری محبت کی قسم
جان کر ہم نے تجھے خود سے خفا رکھا ہے
دشت و در خیر منائیں کہ ابھی وحشت میں
عشق نے پہلا قدم نام خدا رکھا ہے
ہجر میں رنج بھی کرتے ہیں پہ اتنا بھی سلیم
یار تو نے تو عجب حال بنا رکھا ہے
غزل
عشق میں جس کے یہ احوال بنا رکھا ہے
سلیم احمد