عشق میں ہر تمنائے قلب حزیں سرخ آنسو بہائے تو میں کیا کروں
ناامیدی ہمہ وقت امید کے حاشیوں کو مٹائے تو میں کیا کروں
اس کے رخسار صبح درخشاں سہی اس کی زلفوں میں شام غریباں سہی
دھوپ اور چھاؤں کی طرح وہ خود نگر سامنے میرے آئے تو میں کیا کروں
وہ الگ میں الگ وہ کہیں ہیں کہیں واقعی یہ تو شایان الفت نہیں
وہ ادا آشنا حسن ناز آفریں بے نیازی دکھائے تو میں کیا کروں
ہے سفینے کا میرے محافظ خدا نا خدا بھی مددگار ہے اب مرا
یہ بھی مانا کہ ہے اب موافق ہوا دل ہی جب ڈوب جائے تو میں کیا کروں
آہ سوزاں کا الفت میں یارا نہیں تجھ پہ آنچ آئے مطلق گوارا نہیں
اڑ کے چنگاریاں آتش وقت کی تیرا دامن جلائے تو میں کیا کروں
کون سا غم ہے جس کا مداوا نہیں کون سا درد ہے جس کا چارا نہیں
عشق کو غم ہو پیارا تو کیا کیجیئے درد ہی دل کو بھائے تو میں کیا کروں
کام جو رہنما کا تھا میں نے کیا اس کی منزل کا اس کو پتہ بھی دیا
پھر بھی طرفہؔ کوئی رہرو کم نظر راستہ بھول جائے تو میں کیا کروں
غزل
عشق میں ہر تمنائے قلب حزیں سرخ آنسو بہائے تو میں کیا کروں
طرفہ قریشی