عشق میں ہر بلا کو آنے دو
مجھ کو میرا مقام پانے دو
گزری باتوں کو کیسے جانے دوں
عہد ماضی کو یاد آنے دو
مرحلوں سے گریز کیا مانع
ہمت زیست کو بڑھانے دو
خود سمجھ لیں گے دل کو وہ میرے
ان کو دل کے قریب آنے دو
کل انہیں بھی تو پھول بننا ہے
آج غنچوں کو مسکرانے دو
ان کی دریا دلی کو دیکھیں ہم
آج دامن ہمیں بڑھانے دو
جن کو راجےؔ قریب سمجھا ہے
وہ ستاتے ہیں تو ستانے دو
غزل
عشق میں ہر بلا کو آنے دو
مایا کھنّہ راجے بریلوی