EN हिंदी
عشق میں ہر بلا کو آنے دو | شیح شیری
ishq mein har bala ko aane do

غزل

عشق میں ہر بلا کو آنے دو

مایا کھنّہ راجے بریلوی

;

عشق میں ہر بلا کو آنے دو
مجھ کو میرا مقام پانے دو

گزری باتوں کو کیسے جانے دوں
عہد ماضی کو یاد آنے دو

مرحلوں سے گریز کیا مانع
ہمت زیست کو بڑھانے دو

خود سمجھ لیں گے دل کو وہ میرے
ان کو دل کے قریب آنے دو

کل انہیں بھی تو پھول بننا ہے
آج غنچوں کو مسکرانے دو

ان کی دریا دلی کو دیکھیں ہم
آج دامن ہمیں بڑھانے دو

جن کو راجےؔ قریب سمجھا ہے
وہ ستاتے ہیں تو ستانے دو