عشق میں دل لگی سی رہتی ہے
غم بھی ہو تو خوشی سی رہتی ہے
دل میں کچھ گدگدی سی رہتی ہے
منہ پر ان کے ہنسی سی رہتی ہے
یہ ہوا ہے خدا خدا کر کے
رات دن بے خودی سی رہتی ہے
حشر کے دن بھی کچھ گنہ کر لوں
معصیت میں کمی سی رہتی ہے
صدقے میں اپنے غنچہ دل کے
یہ کلی کچھ کھلی سی رہتی ہے
اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی
بے پیے بے خودی سی رہتی ہے
عیش بھی ہو تو لطف عیش نہیں
ہر دم افسردگی سی رہتی ہے
شب غم کی سحر میں نور کہاں
صبح بھی شام ہی سی رہتی ہے
یہ نہیں ہے کہ پردہ پڑ جائے
نشہ میں آگہی سی رہتی ہے
رہتے ہیں گل لحد کے پژمردہ
شمع بھی کچھ بجھی سی رہتی ہے
ہو گئی کیا بلا مرے گھر کو
رات دن تیرگی سی رہتی ہے
اب جنوں کی عوض ہے یاد جنوں
ہاتھ میں ہتھکڑی سی رہتی ہے
کف پا سے حنا نہیں چھٹتی
آگ یہ کچھ دبی سی رہتی ہے
تیری تصویر ہو کہ تیغ تری
ہم سے ہر دم کھنچی سی رہتی ہے
بدلے بوتل کے اب حرم میں ریاضؔ
ہاتھ میں زمزمی سی رہتی ہے
غزل
عشق میں دل لگی سی رہتی ہے
ریاضؔ خیرآبادی