عشق میں برباد ہونے کے سوا رکھا نہ تھا
غم کو سہنے کے علاوہ کوئی بھی چارہ نہ تھا
یاد رہ رہ کر کسی کی ہے ستاتی رات بھر
صبح ہوتے بھول جانا یہ تجھے شیوہ نہ تھا
یہ تری الفت مجھے رکھتی ہے بیتابی میں گم
یہ سبھی کو تھی خبر لیکن کوئی چرچا نہ تھا
آئینہ دیکھوں تو کیوں تو ہی نظر آئے مجھے
بولتا ہے کیا ترا چہرہ میرے جیسا نہ تھا
دن گزر جاتا ہے دنیا کی مسافت میں مگر
رات ہی اک امتحاں ہے جس کا اندازہ نہ تھا
رات کی تنہائیاں آغوش میں لے کر مجھے
پوچھتی ہیں کیا کبھی تنہائیاں دیکھا نہ تھا
کیا محبت وہ نشہ ہے میں ذرا جانوں نثارؔ
زندگی میں اس طرح پہلے کبھی بہکا نہ تھا
غزل
عشق میں برباد ہونے کے سوا رکھا نہ تھا
احمد نثار