عشق کیا ہے خود فراموشی مسلسل اضطراب
حسن کیا ہے جلوہ آرائی بہ انداز حجاب
روح مضطر دل پریشاں چشم ہے محروم خواب
میں بہت مسرور ہوں اے عشق تو ہے کامیاب
جاں نثاروں پر تمہارے راز یہ افشا ہوا
موت لطف سرمدی ہے زیست یکسر اضطراب
چاک دامانی کا غم ہے اب نہ کچھ فکر رفو
کر چکے دیوانے تم سے زندگی کا انتساب
گل فسردہ ہوں خس و خاشاک میں بالیدگی
باغباں ایسا تو آیا تھا نہ پہلے انقلاب
دو جہاں میں صرف یہ ہے عشق کی دولت صغیرؔ
سینۂ پر داغ چشم تر دل حسرت مآب
غزل
عشق کیا ہے خود فراموشی مسلسل اضطراب
صغیر احمد صغیر احسنی