عشق کیا ہے غم ہستی کا فنا ہو جانا
پیکر خاک کا مٹ مٹ کے خدا ہو جانا
یہ دو دو جہاں ہے تری زلفوں کا اسیر
راس آیا ہے اسے صید بلا ہو جانا
نا خدائی پہ ہے ناز اہل سفینہ ہشیار
نا خدا چاہتا ہے آپ خدا ہو جانا
سینکڑوں سجدوں میں واعظ کو ہوا ہے حاصل
زینت محفل ارباب ریا ہو جانا
فیض عاصی ہے کہ اس بزم سخن میں قیصرؔ
ہے میسر مجھے یوں گرم نوا ہو جانا
غزل
عشق کیا ہے غم ہستی کا فنا ہو جانا
قیصر امراوتوی