EN हिंदी
عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگ جاں ہو گئیں | شیح شیری
ishq ki Tisen jo mizrab-e-rag-e-jaan ho gain

غزل

عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگ جاں ہو گئیں

مجید امجد

;

عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگ جاں ہو گئیں
روح کی مدہوش بے داری کا ساماں ہو گئیں

پیار کی میٹھی نظر سے تو نے جب دیکھا مجھے
تلخیاں سب زندگی کی لطف ساماں ہو گئیں

اب لب رنگیں پہ نوریں مسکراہٹ کیا کہوں
بجلیاں گویا شفق زاروں میں رقصاں ہو گئیں

ماجرائے شوق کی بے باکیاں ان پر نثار
ہائے وہ آنکھیں جو ضبط غم میں گریاں ہو گئیں

چھا گئیں دشواریوں پر میری سہل انگاریاں
مشکلوں کا اک خیال آیا کہ آساں ہو گئیں