عشق کی کوئی تفسیر تھی ہی نہیں
واسطے میرے تقدیر تھی ہی نہیں
کس لیے ہو کے مجبور تم آئے ہو
بیچ دونوں کے زنجیر تھی ہی نہیں
عالم رنگ و بو کو سجایا گیا
اس تماشے میں تقصیر تھی ہی نہیں
تیرے درشن کو آنکھیں ترستی رہیں
خانۂ دل میں تصویر تھی ہی نہیں
اس کو عنبرؔ گھسیٹا گیا تھا یوں ہی
رانجھے کے واسطے ہیر تھی ہی نہیں
غزل
عشق کی کوئی تفسیر تھی ہی نہیں
نادیہ عنبر لودھی