EN हिंदी
عشق کی کوئی تفسیر تھی ہی نہیں | شیح شیری
ishq ki koi tafsir thi hi nahin

غزل

عشق کی کوئی تفسیر تھی ہی نہیں

نادیہ عنبر لودھی

;

عشق کی کوئی تفسیر تھی ہی نہیں
واسطے میرے تقدیر تھی ہی نہیں

کس لیے ہو کے مجبور تم آئے ہو
بیچ دونوں کے زنجیر تھی ہی نہیں

عالم رنگ و بو کو سجایا گیا
اس تماشے میں تقصیر تھی ہی نہیں

تیرے درشن کو آنکھیں ترستی رہیں
خانۂ دل میں تصویر تھی ہی نہیں

اس کو عنبرؔ گھسیٹا گیا تھا یوں ہی
رانجھے کے واسطے ہیر تھی ہی نہیں