عشق کی دیوانگی مٹ جائے گی
یا کسی کی زندگی مٹ جائے گی
ختم ہو جائے گا جب قصہ حضور
آپ کی حیرانگی مٹ جائے گی
آپ بھی روئیں گے شاید زارزار
پھول جیسی یہ ہنسی مٹ جائے گی
ایک دن بجھ جائیں گے یہ مہر و ماہ
یا نظر کی روشنی مٹ جائے گی
یا فنا ہو جائیں گی گلیاں تری
یا مری آواز ہی مٹ جائے گی
حسن بھی برباد ہو جائے گا دوست
اور دل کی دلکشی مٹ جائے گی
اس قدر آباد ہو جائیں گے لوگ
حسرت تعمیر ہی مٹ جائے گی
غزل
عشق کی دیوانگی مٹ جائے گی
ذیشان ساحل