EN हिंदी
عشق کی داستان ہے پیارے | شیح شیری
ishq ki dastan hai pyare

غزل

عشق کی داستان ہے پیارے

جگر مراد آبادی

;

عشق کی داستان ہے پیارے
اپنی اپنی زبان ہے پیارے

کل تک اے درد یہ تپاک نہ تھا
آج کیوں مہربان ہے پیارے

سایۂ عشق سے خدا ہی بچائے
ایک ہی قہر مان ہے پیارے

اس کو کیا کیجئے جو لب نہ کھلیں
یوں تو منہ میں زبان ہے پیارے

یہ تغافل بھی ہے نگہ آمیز
اس میں بھی ایک شان ہے پیارے

جس نے اے دل دیا ہے اپنا غم
اس سے تو بد گمان ہے پیارے

دل کا عالم نگاہ کیا جانے
یہ تو صرف اک زبان ہے پیارے

میرے اشکوں میں اہتمام نہ دیکھ
عاشقی کی زبان ہے پیارے

ہم زمانے سے انتقام تو لیں
اک حسیں درمیان ہے پیارے

عشق کی ایک ایک نادانی
علم و حکمت کی جان ہے پیارے

تو نہیں میں ہوں میں نہیں تو ہے
اب کچھ ایسا گمان ہے پیارے

کہنے سننے میں جو نہیں آتی
وہ بھی اک داستان ہے پیارے

رکھ قدم پھونک پھونک کر ناداں
ذرے ذرے میں جان ہے پیارے

کس کو دیکھے سے دل کو چوٹ لگی
کیوں یہ اتری کمان ہے پیارے

تیری برہم خرامیوں کی قسم
دل بہت سخت جان ہے پیارے

ہاں ترے عہد میں جگرؔ کے سوا
ہر کوئی شادمان ہے پیارے