عشق کی بیماری ہے جن کو دل ہی دل میں گلتے ہیں
مردے ہیں وہ حقیقت میں ظاہر میں پھرتے چلتے ہیں
جب راہ میں مل گئے کہنے لگے تیرے ہی گھر میں جاتا تھا
جاؤ چلے لڑکا تو نہیں میں مجھ کو اپنے مچلتے ہیں
اوروں کے لگانے بجھانے سے اتنا جلاتے ہو مجھ کو
ڈریے ہماری آہوں سے ہم لوگ بھی جلتے بلتے ہیں
سب کہتے ہیں ان کے منہ میں تو آب حیات بھرا ہے سب
ہم سے جو کرتے ہیں باتیں پھر کیوں زہر اگلتے ہیں
کیسے ہی درد کا شعر پڑھیں وے یوں بھی نہ پوچھے کیا بک گئے
جن کے دل پتھر ہیں سو کب ان باتوں سے پگھلتے ہیں
بس کریے چپ رہیے اب کھلوانا رازوں کا خوب نہیں
ملتے ہیں ہم ہاتھ پڑے کوئی اور کچھ اور ہی ملتے ہیں
میرے اشک سرخ سے تم یوں غافل ہو افسوس افسوس
دیکھو تو یہ لعل کے ٹکڑے کیسے خاک میں رلتے ہیں
شاید آتے جاتے پھر اس خانہ جنگ سے بگڑی ہے
گھر سے بہت کم میر رضاؔ جی اب ان روزوں نکلتے ہیں
غزل
عشق کی بیماری ہے جن کو دل ہی دل میں گلتے ہیں
رضا عظیم آبادی