عشق کی آنچ میں سندرتا کا بھی دھن جلتا ہے
پروانے کی چتا پر شمع کا جوبن جلتا ہے
اگنی بان ہیں تیری نظریں آئینہ مت دیکھ
تیرے شیش محل کا اک اک درپن جلتا ہے
رنگ روپ کی لو بھی نظر اس بھید کو کیا جانے
روپ آیا ہے گلشن پر یا گلشن جلتا ہے
جب جب سلگے کوئی موہن یاد تو برسوں تک
مٹی کا ٹیلہ آنکھوں کا سونا بن جلتا ہے
دل کی لگی کس اور بجھے اک جلتے دل کے ساتھ
سارا پورب پچھم اتر دکھن جلتا ہے
میرے سوز و ساز کے رسیا تجھ کو کیا معلوم
سات سروں کی آگ میں میرا تن من جلتا ہے
انگ انگ میں اس کے مصورؔ نرم لویں سی ہیں
جب وہ ہاتھ میں کنگن پہنے کنگن جلتا ہے
غزل
عشق کی آنچ میں سندرتا کا بھی دھن جلتا ہے
مصور سبزواری