عشق کی آج انتہا کر دو
روح کو جسم سے جدا کر دو
ہے خلاصہ یہی محبت کا
ہو جو اچھا اسے برا کر دو
یہ جو آنکھوں سے خون جاری ہے
اس کو ہاتھوں کی تم حنا کر دو
وقت رخصت گلے لگا لینا
آخری بار یہ خطا کر دو
تم مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتی
اپنے حق میں تو فیصلہ کر دو
شبنمی رات کے اندھیرے کو
برہنہ جسم کی قبا کر دو
اب اٹھا دو نقاب چہرے سے
رات کو چاند سے خفا کر دو
ہے کہ دشوار زندگی فہمیؔ
خود کو بیمار با خدا کر دو

غزل
عشق کی آج انتہا کر دو
فیصل فہمی