عشق کے واسطے ہے دل کی آڑ
کوئی دیکھے یہ تل کی اوٹ پہاڑ
سرکشی وجہ افتخار نہیں
قد میں شمشاد سے بڑا ہے تاڑ
ستیاناس ہو گیا دل کا
عشق نے خوب کی اکھاڑ پچھاڑ
وہ خدا جانے گھر میں ہیں کہ نہیں
کچھ کھلا اور کچھ ہے بند کواڑ
حسرتیں بعد مرگ جائیں کہاں
دفن کر مجھ کو اور انہیں بھی گاڑ
ناتواں دل اٹھائے کیا غم عشق
اک طرف رائی ایک سمت پہاڑ
میری تقدیر کا مرے دل کا
ان کے ہاتھوں میں ہے بناؤ بگاڑ
خاک میری بھی اس میں شامل ہے
اپنے دامن سے گرد راہ نہ جھاڑ
مال و زر دے دیا حسینوں کو
رہ گیا گھر میں صرف کاٹھ کباڑ
کاش اٹھ جائے پردۂ ہستی
میرے اور اس کے بیچ میں ہے یہ آڑ
شعلۂ غم سے دل کا حال یہ ہے
جیسے پہلو میں جل رہا ہو بھاڑ
چار دن وہ بناؤ رکھتے ہیں
اور رکھتے ہیں آٹھ روز بگاڑ
وہ نہیں تو مری نگاہ میں ہے
باغ ویران اور شہر اجاڑ
رخت ہستی کے ہو چکے ٹکڑے
اے جنوں اب مرے کفن کو پھاڑ
نوحؔ طوفان ہجر الفت میں
کوہ جودی کی ڈھونڈتے ہیں آڑ
غزل
عشق کے واسطے ہے دل کی آڑ
نوح ناروی