عشق کے ہاتھوں یہ ساری عالم آرائی ہوئی
عشق کے ہاتھوں قیامت بھی ہے اب آئی ہوئی
اللہ اللہ کیا ہوا انجام کار آرزو
توبہ توبہ کس قدر ہنگامہ آرائی ہوئی
کیا ہے میرا حاصل گل چینیٔ باغ جمال
آرزو کی چند کلیاں وہ بھی مرجھائی ہوئی
چھوڑ بھی یہ سلسلہ او نامراد انتظار
موت بیٹھی ہے تیرے بالیں یہ اکتائی ہوئی
شہر مایوسی میں اک چھوٹی سی امید وصال
اجنبی کی شکل میں پھرتی ہے گھبرائی ہوئی
کر لیا ہے عقد اردوئے معلیٰ سے حفیظؔ
قلعۂ دہلی سے آئی تھی یہ ٹھکرائی ہوئی
غزل
عشق کے ہاتھوں یہ ساری عالم آرائی ہوئی
حفیظ جالندھری