EN हिंदी
عشق کے ہاتھوں یہ ساری عالم آرائی ہوئی | شیح شیری
ishq ke hathon ye sari aalam-arai hui

غزل

عشق کے ہاتھوں یہ ساری عالم آرائی ہوئی

حفیظ جالندھری

;

عشق کے ہاتھوں یہ ساری عالم آرائی ہوئی
عشق کے ہاتھوں قیامت بھی ہے اب آئی ہوئی

اللہ اللہ کیا ہوا انجام کار آرزو
توبہ توبہ کس قدر ہنگامہ آرائی ہوئی

کیا ہے میرا حاصل گل چینیٔ باغ جمال
آرزو کی چند کلیاں وہ بھی مرجھائی ہوئی

چھوڑ بھی یہ سلسلہ او نامراد انتظار
موت بیٹھی ہے تیرے بالیں یہ اکتائی ہوئی

شہر مایوسی میں اک چھوٹی سی امید وصال
اجنبی کی شکل میں پھرتی ہے گھبرائی ہوئی

کر لیا ہے عقد اردوئے معلیٰ سے حفیظؔ
قلعۂ دہلی سے آئی تھی یہ ٹھکرائی ہوئی