عشق کے ہاتھوں میں پرچم کے سوا کچھ بھی نہیں
اس کا عالم تیرے عالم کے سوا کچھ بھی نہیں
بے یقینی سوئے ظن ایمان ناقص کی دلیل
فکر راحت خطرۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم سے پوچھو ہم بتائیں غایت کون و مکاں
کار گاہ ابن آدم کے سوا کچھ بھی نہیں
آتش نفرت سے اب دنیا ہے ایسے موڑ پر
دیدہ ور گو یہ جہنم کے سوا کچھ بھی نہیں
یاد ایامے کہ یہ بھی جان رزم و بزم تھے
جن کے پاس اب چشم پر نم کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم نہیں منجملہ اہل رضا کیوں کر کہیں
جن کے لب پر قصۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں
اہل دنیا کے لیے جو ابر نیساں تھا عروجؔ
اب وہ انساں اشک شبنم کے سوا کچھ بھی نہیں
غزل
عشق کے ہاتھوں میں پرچم کے سوا کچھ بھی نہیں
عروج زیدی بدایونی