EN हिंदी
عشق کے ہاتھوں میں پرچم کے سوا کچھ بھی نہیں | شیح شیری
ishq ke hathon mein parcham ke siwa kuchh bhi nahin

غزل

عشق کے ہاتھوں میں پرچم کے سوا کچھ بھی نہیں

عروج زیدی بدایونی

;

عشق کے ہاتھوں میں پرچم کے سوا کچھ بھی نہیں
اس کا عالم تیرے عالم کے سوا کچھ بھی نہیں

بے یقینی سوئے ظن ایمان ناقص کی دلیل
فکر راحت خطرۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں

ہم سے پوچھو ہم بتائیں غایت کون و مکاں
کار گاہ ابن آدم کے سوا کچھ بھی نہیں

آتش نفرت سے اب دنیا ہے ایسے موڑ پر
دیدہ ور گو یہ جہنم کے سوا کچھ بھی نہیں

یاد ایامے کہ یہ بھی جان رزم و بزم تھے
جن کے پاس اب چشم پر نم کے سوا کچھ بھی نہیں

ہم نہیں منجملہ اہل رضا کیوں کر کہیں
جن کے لب پر قصۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں

اہل دنیا کے لیے جو ابر نیساں تھا عروجؔ
اب وہ انساں اشک شبنم کے سوا کچھ بھی نہیں