عشق کے غم گسار ہیں ہم لوگ
حسن کے رازدار ہیں ہم لوگ
دست قدرت کو ناز ہے ہم پر
وقت کے شاہکار ہیں ہم لوگ
ہم سے قائم ہے گلستاں کا بھرم
آبروئے بہار ہیں ہم لوگ
منزلیں ہیں ہمارے قدموں میں
حاصل رہ گزار ہیں ہم لوگ
ہم سے تنظیم ہے زمانے کی
محور روزگار ہیں ہم لوگ
ہم جو چاہیں گے اب وہی ہوگا
صاحب اختیار ہیں ہم لوگ
ہم سے روشن ہے کائنات شکیبؔ
اصل لیل و نہار ہیں ہم لوگ
غزل
عشق کے غم گسار ہیں ہم لوگ
شکیب جلالی