EN हिंदी
عشق کا مارا نہ صحرا ہی میں کچھ چوپٹ پڑا | شیح شیری
ishq ka mara na sahra hi mein kuchh chaupaT paDa

غزل

عشق کا مارا نہ صحرا ہی میں کچھ چوپٹ پڑا

نظیر اکبرآبادی

;

عشق کا مارا نہ صحرا ہی میں کچھ چوپٹ پڑا
ہے جہاں اس کا عمل وہ شہر بھی ہے پٹ پڑا

عاشقوں کے قتل کو کیا تیز ہے ابرو کی تیغ
ٹک ادھر جنبش ہوئی اور سر ادھر سے کٹ پڑا

اشک کی نوک مژہ پر شیشہ بازی دیکھیے
کیا کلائیں کھیلتا ہے بانس پر یہ نٹ پڑا

شاید اس غنچہ دہن کو ہنستے دیکھا باغ میں
اب تلک غنچہ بلائیں لیتا ہے چٹ چٹ پڑا

دیکھ کر اس کے سراپا کو یہ کہتی ہے پری
سر سے لے کر پاؤں تک یاں حسن آ کر پھٹ پڑا

کیا تماشا ہے کہ وہ چنچل ہٹیلا چلبلا
اور سے تو ہٹ گیا پر میرے دل پر ہٹ پڑا

کیا ہوا گو مر گیا فرہاد لیکن دوستو
بے ستوں پر ہو رہا ہے آج تک کھٹ کھٹ پڑا

ہجر کی شب میں جو کھینچی آن کر نالے نے تیغ
کی پٹے بازی ولے تاثیر سے ہٹ ہٹ پڑا

دل بڑھا کر اس میں کھینچا آہ نے پھر نیمچہ
اے نظیرؔ آخر وہ اس کا نیمچہ بھی پٹ پڑا