عشق کا درد بے دوا ہے یہ
جانے تیری بلا کہ کیا ہے یہ
مار ڈالے گی ایک عالم کو
تیری اے شوخ گر ادا ہے یہ
ہر دم آتا ہے اور ہی سج سے
کیا ہی اللہ میرزا ہے یہ
چاہئے اس کا شربت دیدار
کہ تپ عشق کی دوا ہے یہ
اس ستم پیشہ مہر دشمن کی
میرے اوپر اگر جفا ہے یہ
اس میں اس کی تو کچھ نہیں تقصیر
چاہنے کی مرے سزا ہے یہ
دل بیدارؔ کو تو لوٹ لیا
زلف ہے یا کوئی بلا ہے یہ
غزل
عشق کا درد بے دوا ہے یہ
میر محمدی بیدار