عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہو کر
انتہا ہوئی غم کی دل کی ابتدا ہو کر
دل ہمیں ہوا حاصل درد میں فنا ہو کر
عشق کا ہوا آغاز غم کی انتہا ہو کر
نامراد رہنے تک نامراد جیتے ہیں
سانس بن گیا اک ایک نالہ نارسا ہو کر
اب ہوئی زمانہ میں شیوۂ وفا کی قدر
عالم آشنا ہے وہ دشمن وفا ہو کر
اور بندے ہیں جن کو دعوی خدائی ہے
تھی ہماری قسمت میں بندگی خدا ہو کر
عمر خضر کے انداز ہر نفس میں پاتا ہوں
زندگی نئی پائی آپ سے جدا ہو کر
بڑھتا ہے نہ گھٹتا ہے مرتے ہیں نہ جیتے ہیں
درد پر خدا کی مار دل میں رہ گیا ہو کر
کارگاہ حسرت کا حشر کیا ہوا یا رب
داغ دل پہ کیا گزری نقش مدعا ہو کر
عشق سے ہوئے آگاہ صبر کی بھی حد دیکھی
خاک میں ملا دوگے دیر آشنا ہو کر
کی قضائے مبرم نے زندگی کی غم خواری
درد کی دوا پہنچی درد بے دوا ہو کر
زندگی سے ہو بے زار فانیؔ اس سے کیا حاصل
موت کو منا لوگے جان سے خفا ہو کر
غزل
عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہو کر
فانی بدایونی