عشق الزام بھی تو ہوتا ہے
یہ برا کام بھی تو ہوتا ہے
دوستی کچھ مجھی کو تم سے نہیں
یہ مرض عام بھی تو ہوتا ہے
نہیں تکلیف ہی محبت میں
اس میں آرام بھی تو ہوتا ہے
وعدہ کرنے میں پھر تأمل کیا
ہاں تمہیں کام بھی تو ہوتا ہے
رات دن درد ہی نہیں رہتا
دل کو آرام بھی تو ہوتا ہے
نشۂ حسن اور پھر کب تک
بادۂ خام بھی تو ہوتا ہے
نام پر تیرے کیوں نہ آتا پیار
پیار کا نام بھی تو ہوتا ہے
کیا تعجب جو ہو وصال میں وصل
کام میں کام بھی تو ہوتا ہے
اے صفیؔ عاشقی کی یہ تعریف
اور انجام بھی تو ہوتا ہے

غزل
عشق الزام بھی تو ہوتا ہے
صفی اورنگ آبادی