عشق ہر چند مصائب سے پریشاں نہ ہوا
نہ ہوا حسن مگر تابع فرماں نہ ہوا
لاکھ دنیا نے یہ چاہا کہ پریشاں ہو مگر
میں ترے غم کی حفاظت میں پریشاں نہ ہوا
دل کی آواز ہو محروم اثر کیا معنی
عشق کافر ہے اگر حسن مسلماں نہ ہوا
درپئے عقدۂ ہستی ہے ازل ہی سے بشر
لیکن اک خاک کے ذرے کا بھی عرفاں نہ ہوا
دل میں ہر خون کا قطرہ ہے تلاطم بکنار
جو مگر آنکھ سے ٹپکا وہی طوفاں نہ ہوا
تو وہ آزاد کہ بے وجہ ہے مجھ سے بھی گریز
میں وہ مجبور کہ دشمن سے بھی نالاں نہ ہوا
اپنی پیغام نوائی کے نتائج میں مجھے
فکر زنداں تو رہا ہے غم زنداں نہ ہوا
جس کے مشرب میں محبت ہو محبت کا جواب
میری تقدیر میں ایسا کوئی انساں نہ ہوا
ایک ہی جلوے سے احسانؔ نظر ہٹ نہ سکی
مجھ سے کچھ اس کے سوا کار نمایاں نہ ہوا
غزل
عشق ہر چند مصائب سے پریشاں نہ ہوا
احسان دانش