عشق ہے وحشت ہے کیا ہے کچھ پتا تو چاہئے
کیا کہوں میں اس سے آخر مدعا تو چاہئے
درگزر کر میرے مالک تو نظر آتا نہیں
سر جھکانے کے لئے کوئی پتا تو چاہئے
رات کی پلکیں بھی خالی گھر کے آنگن کی طرح
روشنی کے واسطے کوئی دیا تو چاہئے
سر خمیدہ شہر میں اس کے حریم ناز تک
بوئے گل کے واسطے دست صبا تو چاہئے
خط کشیدہ ساری تحریریں اسی کے نام ہیں
حرف حق کو اذن دے صوت و صدا تو چاہئے
رات کی شاخوں پہ کچھ خوابوں کے گل بوٹے سجا
جاگتی آنکھوں کو آخر آسرا تو چاہئے

غزل
عشق ہے وحشت ہے کیا ہے کچھ پتا تو چاہئے
خالد جمال