عشق ہے اختیار کا دشمن
صبر و ہوش و قرار کا دشمن
دل تری زلف دیکھ کیوں نہ ڈرے
جال ہو ہے شکار کا دشمن
ساتھ اچرج ہے زلف و شانے کا
مور ہوتا ہے مار کا دشمن
دل سوزاں کوں ڈر ہے انجہواں سیں
آب ہو ہے شرار کا دشمن
کیا قیامت ہے عاشقی کے رشک
یار ہوتا ہے یار کا دشمن
آبروؔ کون جا کے سمجھاوے
کیوں ہوا دوست دار کا دشمن
غزل
عشق ہے اختیار کا دشمن
آبرو شاہ مبارک